Tuesday, November 8, 2011

Aligarh ke mushayre me sadr-e- mushayra maynaaz adeeb qazi abdusattar aur khaksaar aadil rasheed

Aligarh ke mushayre me sadr-e- mushayra maynaaz adeeb qazi abdusattar aur khaksaar aadil rasheed

Aligarh ka safar Nama...aadil rasheed





علی گڑھ کا سفر نامہ  
هندوستان میں جو چند شہر ہیں جہاں شاعری سنی جاتی ہے انمے علیگڑھ  کی اپنی الگ حیثیت ہے.
علی گڑھ میں مشاعرہ   پڑھنا اپنے آپ میں ایک خوشی کی بات ہے وہاں زبان کو سمجھنے والے لوگ رہتے ہیں    شعر  کو اس کی روح تک جاکر سمجھتے ہیں اور اسایک لفظ  تک کی داد دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ
 شعر  شعر ہوتا ہے. میں تو کہتا ہوں کے وہاں نشست پڑھنا کسی ایسی جگہ کے مشاعرہ پڑھنے سے لاکھ بہتر ہے جہاں شعر نہ سنے جاتے ہوں بلكے  مشاعرہ   دیکھا جاتا ہو.

 مشاعرہ  پڑھنے کے بعد ہمیں نہ چاہتے ہوئے کار اسی رستے پر ڈالنی پڑی جس سے گئے تھے.
علی گڑھ  سے بلندشہر  تک کا جو راستہ ہے وہ فی الحال ہندوستان کی روح کی طرح زخمی ہے ایسے اوبڑ كھابڑ راستے پر کار سے تیز تو سائیکل چلتی ہے دھول اتنی کے اس سےزیادہ  تو کہرے میں دکھائی دیتا ہے.
بار بار مجیب صاحب کی یہی بات یاد آ رہی تھی "عادل بھائی بائی روڈ مت آنا" اب بغیر نقصان اٹھائے کسی نے کسی کی مانی ہے آج تک جو ہم مانتے ہم بھی گئے بائی روڈ ہی.

 
ہم گئے تو بايا ہاپوڑ تھے لیکن اچانک خیال آیا کے بلند شہر سےسکندرآباد  ہوتے ہوئے جلدیدہلی  پہنچ جايےگے اور ادھر راستہ بھی بہتر ہے.
ےسکندرآباد میں سارے ٹرک اور بس ایک لائن میں کھڑے تھے پتہ کیا کیوں بھائی یہ جام کیسا جواب ملا جھانکیاں نکل رہی ہیں چوراهے پر ہمارا ڈرائیور بہت ہوشیار تھا (کچھ ضرورت سےزیادہ  ہی ہوشیار) گاڑی کو آگے بڑھاتا گیا بڑھاتا گیا بڑھتا گیا اور وہاں تک بڑھاتا گیا جہاں سے اب گاڑی واپس بھی نہیں آ سکتی تھی مطلب نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے.

نشتر نے مجھ سے کہا کے اللہ جانے کہاں تک جام ہے سرکاری نوکری کی یہی پریشانی ہے اب وقت پر کیسے پہنچیں میں نے ہنس کر کہا دوستی بڑی چیز ہے یا نوکری جواب آیااویس بھائی اور مجیب بھائی سے مشورہ کر کے بتاوگا (وہ دونوں بھی سرکاری ملازم ہیں)
پھر میں گاڑی سے اتر کر بہت دور تک دیکھنے گیا جہاں چوراہے پر جھاكي نکل رہی تھی چوراہے پر جا کر دیکھا وہاں چوراہے پر جھاكي نکل کہاں رہی تھی وہ تو رككھي تھی (کیوں کے اگر نکل رہی ہوتی تو اب تک نکل گئی ہوتی) چوراہے پر جام کی وجہ سے ادھر کی گاڑیاں ادھر ادھر کی ادھر تھیں پرشاشن گونگا  دیکھ رہا تھا جب کے اس کو هےڈل کیا جا سکتا تھا لیکن نہیں کس کی مجال کے اس عوامی سیلاب کے سامنے اپنے حقوق کا استعمال کرے
میں نے دیکھا کےایک ایمبولینس   بھی پھنسی ہے اس میں ایک مریضآکسزن  لگا ہوا لیٹا ہے اور اس کے رشتہ دار گمسم ہیں (شاید روتے روتے تھک گئے ہوں گے) ان کودہلی  AIIMS پہنچنا ہے انہوں نے بتایا کے انہوں نے بہت فریاد کیکے مریض ہے اس گاڑی کو کس بھی طرح نکل جانے دو مگر کسی نے ہماری مدد نہیں کی میں ایک افسر کے پاس گیا اور ان سے کہا کے آپ جام كھلواتے کیوں نہیں جواب وہی جو مجھے پہلے سے پتا تھا "مذہبی معاملہ ہے ہمزیادہ  زبردستی نہیں کر سکتے کچھ بھی ہو سکتا ہے "
میں واپس آیا اور اور نشتر کو ساری بات بتائی فیصلہ کیا گاڑییہیں  چھوڑو کسی طرح پیچھے بلند شہر جاکر وہاں سے بايا ہاپوڑ چلا جائے اور پھر اچانک ایک عجیب سی گاڑی شاید "جگاڑ" وہاں آئی اور اس نے آواز لگانی شروع کی بلند شہر بلند شہر بلند شہر
مجھے تو وہ کوئی اللہ کا بھیجا فرشتہ نظر آیا میرا ایک شعر بھی ہے جو میں نے ایسے ہی کسی پریشانی کے موقع پر کسی کے میری مدد کرنے کے بعد کہا تھا
ہمیں اپنے مسائل کا جو کوئی حل نہیں ملتابشکل  آدمی وہ اک فرشتہ بھیج دیتا ہے (عادل رشید 2001)
پھر اس جگاڑ سے بلند شہر تک اور بلند شہر سے بس سے بايا ہاپوڑدہلی  کا سفر کیا. اسی وقت کسی کا بھوپال سے SMS آیا "لوٹ کے بددھو گھر کو آئے" اور کوئی وقت ہوتا تو میں بہت دیر ہنستا اس SMS پر لیکن نہیںہنس  سکا میرے دماغ میں تو وہ مریض اور 
 ایمبولینس گھوم رہی تھی کیا ہوا ہوگا اس کا کیا وہ بچا ہوگا کیا اس کے پاس اتنی اكسيجن تھی کیوں کے جام کیا پتہ کب کھلا ہوگا کیا اتنا وقت دیا ہوگا زندگی نے اس کو. میری نگاہ میں موت ہمیں جتنی مہلت دیتی ہے اتنے ہی وقت کو ہی ہم زندگی کہتے ہیں.
میرےدماغ  میں ایک بات آتی ہے کے کوئی بھی مذہبی یا سیاسی جلوس نکالتے وقت (یہاں کسی خاص مذہب کی طرف اشارہ نہیں اس میں اسلامی جلوس بھی ہیں وہ بھی یہی کرتے ہیں) ہم انسانیت کو کیوں بھول جاتے ہیں کیا ہمیں کوئی بھی مذہب انسانیت کو زخمی کرنے کی اجازت دیتا ہے کیا اس طرح کے جلوس دھرنے مظاہرہ جو زندگی کومردہ  کر دیتے ہیں اس سے اشور خدا جو کے ایک ہی کے الگ الگ نام ہیں کیا وہ خوش ہوتا ہے.
راستے بھر میں اس اجنبی کے لئے خدا سے دعا کرتا رہا کے خدا اس اجنبی کو اتنی ساںسے اور دے دے کے وہ اسپتال پہنچ جائےکیوں کے  اگر وہ ہسپتال نہیں پہنچ سکا تو اس کے رشتے دار ساری زندگی یہی سوچ کر ان لوگوں (جام لگانے والوں) کومعاف  نہیں کر سکیں گے کے کاش جام نہ ہوتا اور وہ وقت سے ہسپتال پہنچ گئے ہوتے تو مریض بچ گیا ہوتا....... عادل رشید()