Tuesday, July 10, 2012

safar safar hai mera intzar mat karna سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا ساحل سحری

میں لوٹنے کے ارادے سے جارہاں ہوں مگر 
سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا ساحل سحری 
اردو ہندی ادب سے دلچسپی رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ہو جس نے یہ شعر نہیں سنا ہو ۔یہ مشہورشعر ہے شاعر ساحل سحری نینی تالی کاجنہوں نے کبھی دماغ کا کہنا نہیں مانا ہمیشہ دل کا کہا کیا اسی دل نے آج ان کے ساتھ بے وفائی کی اور دھڑکن بند ہوجانے کے سبب آج صبح ان کا انتقال ہوگیا۔اللہ انہیں جنّت میں اونچا مقام عطا فرمائے۔
مرحوم ساحل سحری سے میری بڑی قربت تھی وہ ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتے تھے اور جب دہلی آتے تو ضرور ملاقات کرتے ۔انہوں نے مجھے بہت سے مشاعروں میں بلایا بھی یہ کہہ کرکہ ’’اچھی شاعری کو اچھے لوگوں تک پہنچنا چاہئے‘‘ میں بھی اور میری ٹوٹی پھوٹی شاعری بھی ان کے اس جذبے کی ہمیشہ ممنون رہے گی ۔وہ بڑے صاف دل اور صاف گو انسان تھے ۔کسی طرح کی مصلحت کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
ایک بار ان کا یہی مصرع ’’سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا ‘‘طرح کے طور پر دیا گیا جس پر میں نے یوں گرہ لگائی جو ان کے اس بڑے شعر سے بالکل الٹ تھی 
یہ بات سچ ہے مگر کہہ کے کون جاتا ہے 
سفر سفر ہے مرا انتطار مت کرنا 
کچھ عجیب سے لوگوں نے کچھ عجب سے انداز میں ان کو یہ شعر سنایا ۔انہوں نے انہیں کوئی جواب دئے بغیر فوراًجیب سے موبائل نکال کر انہی لوگوں کے سامنے مجھے فون لگایا اور ہنستے ہوئے کہا ’’بر خوردار مبارک ہو ہمارا ریکارڈ توڑ دیا ‘‘میں سٹپٹا گیا اور گھبراتے ہوئے میں نے کہا ’’استاد میں سمجھانہیں ‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے بغیر کسی کا نام لئے ہوئے کہا ’’کچھ لوگ ہمارے پاس آئے ہوئے ہیں اور تمہارا یہ شعر سنارہے ہیں جو تم نے میرے مصر ع پر مصرع لگایا ہے میں نے سوچاکہ تمہیں ان کی موجودگی میں ہی مبارک باد دے دوں۔ میرے اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی کئی بار التجا کرنے پر بھی انہوں نے مجھے اُن عجیب سے لوگوں کے نام کبھی نہیں بتائے او راگر اب وہ اُن کے نام بتانا بھی چاہیں تو نہیں بتاسکتے کیوں کہ روحیں بولتی نہیں ہیں ان کو اپنی بات کہنے کے لئے جسم کی ضرورت ہوتی ہے او رجسم تو آج سپرد خاک ہوگیا۔
میں نے جب جب اُن سے ایسے عجیب آدمی نما کرداروں کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا عادل میاں تم اپنا کام (ادبی خدمت )کرتے رہو اس ادبی سفر میں ابھی تم کو بہت سے عجیب عجیب کردار ملیں گے ۔
ساحل سحری بھی پیشے سے گھڑی ساز تھے اور میں بھی پیشے سے گھڑی ساز۔ ایک بار جب میں نے انہیں اپنا شعر سنایا ؂
اوروں کی گھڑیا ں ہم نے سنواری ہیں رات دن
اور اپنی اک گھڑی کی حفاظت نہ کر سکے
تو ان کی آنکھ نم ہوگئی اور انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’مبارک باد کے ساتھ مجھے افسوس ہے کہ یہ شعر مجھے کہنا چاہئے تھا ‘‘ 
مرحوم ساحل سحری سچّے شاعر سچّے انسان تھے انہوں نے کبھی مشاعرے پڑھنے کے لئے جوڑ توڑ کی راجنیتی نہیں کی کبھی داد حاصل کرنے کے لئے اپنے بندوں پر پرچی بھیجنے کا ڈھونگ بھی انہوں نے نہیں کیا ۔وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے شعر کہتے تھے ۔جب تک ان کے استاد کنور مہندر سنگھ بیدی سحر (اسی لئے وہ سحر لکھتے تھے )زندہ تھے لوگ ان کے آگے پیچھے رہتے تھے بعد میں وہی دنیا جس نے ان سے لیا تو بہت کچھ مگر کسی نے انہیں دیا کچھ نہیں۔
ایک وقت پر مشاعروں پر راج کرنے والا بڑا شاعر مشاعرے کے مائک سے شیر کی طرح دہاڑنے والا شاعر (جس کی نقل کرکے بہت سے شاعر مشاعروں میں بہت کامیاب ہوئے )اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ رفتہ رفتہ مشاعروں سے دوُر ہوتا گیااور آخر کار آج دنیا سے بھی بہت دور ہو گیا ۔لیکن اگر وہ چاہے بھی تو ادب اور ادب کے چاہنے والوں کے دل سے دوُر نہیں ہوسکتا ۔
عادل رشید